ہفتہ وار درس سے اقتباس
میرے محترم دوستو!جب تک مسلمان اپنی وردی میں تھا اور اس کے اندر سوزو صفات میں اضافہ ہو رہاتھا تو سارا عالم اس سے ڈرتا تھا۔ اس کی زمین پہ حکومت تھی۔ ایک مرتبہ ایک پہاڑ سے آگ نکلی۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس آگ کو سمےٹو۔حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ اللہ اکبر کہتے گئے، آگے بڑھتے گئے اور آگ سمٹتی گئی اور جہاں سے نکلی تھی واپس وہیں چلی گئی پھر اس کے اوپر پتھر دے دیا اور آج تک دوبارہ وہاں سے آگ نہیں نکلی۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام جن کا نام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہے، ان کے زمانہ خلافت میں مدینہ میں زلزلہ آیا۔ انہوں نے زمین پر ایک کوڑا مارا اور کہا!کیا میں تیرے اوپر ناانصافی کرتا ہوں؟ زمین تھم گئی، صدیاں ہو گئی ہیں لیکن مدینہ میں اس کے بعد زلزلہ نہیں آیا۔جب اپنے اندر صفات بڑھتی چلی جائیں گی اور اپنے جسم کو صفات سے مزین کرتے چلے جائیں گے تو پھر ساری دنیا اور سارا عالم ہمارا مطےع ہو جائے گا ۔
ساری دنیا ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ) کی مطےع ہو گئی تھی۔ ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جنگل میں گئے اورآواز لگائی کہ ہم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں۔ ہاں، نام تو ہمارا بھی غلام ہے، غلام رسول، غلام مصطفی، غلام محمد، نام تو غلام ہے لیکن کاش ہم کام کے بھی غلام بن جائیں۔ میں نے جگہ جگہ کپڑا (بینر) لکھا ہوادیکھا ہے ”غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے“ لیکن نماز قبول نہیں ہے، موت قبول ہے۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جنگل ہمارے لئے خالی کر دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ جنگل کے جانور اپنے بچوں کو منہ میں لے کر بھاگے جا رہے ہیں۔ شیرنی اپنے بچے کو منہ میں لے کے جارہی ہے، سانپ اپنے بچے لے کے جا رہاہے۔ جنگل خالی ہو گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے ایک لفظ کہا تھا، اس لفظ کو سمجھیں کہ ”ہم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں “۔ آج ہم خود اپنے آپ کو دیکھیں کہ ہم کس حد تک غلام ہیں اور ہماری معاشرت کس طرز کی ہے۔ ایک اللہ والے کے بقول کہ جب حیا ءآئے گی تو پھرلباس سادہ اور کشادہ ہوگااور جب حیاءجائے گی تو لباس سمٹتا چلا جائے گا۔ جب سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت والی اورتعلق والی صفات آئیں گی تو پھر جسم کا ہر نظام سنور تا چلا جائے گا۔ ایک وردی والے ٹریفک سارجنٹ نے ساری کی ساری ٹریفک کو روکا ہوا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کھڑا ہوا ہے اور جو اس کی نہیں مانتا کاغذ (چالان) پکڑ کر اس کے ہاتھ پہ رکھ دیتا ہے۔ آپ اس سے کہیں کہ وردی اتار کے آکے کھڑا ہو جائے۔ لوگ اس کو نیچے دے کر چلے جائیں گے۔ آج کہتے ہیں کہ ہم ( مسلمان ) پسے جارہے ہیں ہماری کوئی عزت نہیں، ہمارا کوئی وقار نہیں، ہماری کوئی شان و شوکت نہیں، دنیا میںسب سے زیادہ ظلم و ستم ہمارے اوپر ہیں لیکن ہم اپنی حالت پر غور کیوں نہیں کرتے۔ کبھی ترازو لے کے اب سے پہلے جو مسلمان تھے ان میں اور اپنے درمیان موازنہ کیا؟ کبھی تو لا تو کریں کہ کس کا وزن زیادہ ہے۔ہم صفات کے اعتبار سے روز بروز بڑھتے چلے جائیں تو یہ تو ہے ترقی اور اگر صفات اور اعمال کے حساب سے بڑھ نہیں رہے بلکہ کم ہو رہے ہیں تو پھر ترقی نہیں ہو رہی ۔پھر دیکھیں کہ ہمارے اندر کونسی ایسی غلطی یا خامی ہے کہ ہم پر یہ اللہ والی باتیں اثر نہیں کر رہیں، ہمارے اندر انقلاب نہیں آرہا، آخر ایسی کو ن سی خامی ہے، ایسا کونسا جھول ہے یا ٹیوب کے اندر ایسا کونسا سوراخ ہے کہ جتنی ہوا بھریں سب کی سب نکل رہی ہے۔ میرے دوستو! واسا والے اگرکبھی اعلان کریں کہ ہمارے ٹیوب ویل اور تاریں خراب ہو گئی ہیں چند دن پانی نہیں آئے گا۔ جتنا پانی آپ نے جمع کرنا ہے ، کر لیں ۔ہر شخص نے اپنے گھر کی ضروریات کے لئے پانی جمع کر لیا، اور ٹینکیاں بھر لیں۔ اپنی ضروریات کے لئے پانی کی ٹینکی تو بھری تھی لیکن نیچے گھر کی ٹونٹیاں کھلی رہ گئیں تو کیا وہ ٹینکی بھری رہے گی؟ جب ٹونٹیاں کھلی رہ گئیں تو ٹینکی ختم ہو جائے گی۔ منہ نے ذکر کیا، تسبیح کی، ٹوٹی پھوٹی نماز پڑھ لی ، تھوڑی سی تلاوت کر لی، کچھ اللہ کا نام لے لیا اور آنکھوں کی یا زبان کی ٹونٹی کھلی رہ گئی اور آنکھوں سے اللہ کو ناراض کیا یا زبان سے اور جسم کے دوسرے اعضاءسے نافرمانی کی،یوں سارے کا سارا نور اور ساری کی ساری نیکیاں ختم کر بےٹھے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے ، اللہ ان کے درجات بلند کرے ،وہ اکثر ایک بات کہتے تھے کہ سب لٹا کے مہاجر کے مہاجر ہی رہ گئے ، مہاجر خالی ہاتھ آئے تھے تو کہنے کا مقصد ہے کہ سب کچھ لٹا کے مہاجر کے مہاجر ہی رہ گئے۔
اعمال میں، اللہ سے مانگنے میں، اللہ کے ساتھ امےد میں، اللہ جل شانہ‘ کے ساتھ تعلق میں ہم بڑھ رہے ہوں، ہمارے دل کے اندر کی ندامت بڑھ رہی ہو، استغفار بڑھ رہا ہو اور توبہ کا رجوع بڑھ رہا ہو، روز بروز ترقی ہو رہی ہو، اللہ جل شانہ کے قریب ہو رہے ہوں، سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے قریب ہو رہے ہوں اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت عملی طور پہ اندر آ رہی ہو ۔ زبانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر سچی محبت ہو۔ اصل میں عرس کی جو ابتدا پڑی تھی وہ ایسے پڑی تھی کہ ان شخصیات کی سیرت کا تذکرہ ہو کہ انہوں نے اللہ جل شانہ ‘کو کیسے منایا تھا، اللہ کے ساتھ کیسے محبت کی تھی، یہ مقام کیسے ملا تھا ۔در حقیقت عرس کی ابتدا ایسے پڑی تھی مگراب تو کام ہی کہیں اور نکل گیا ہے۔ وہ لوگ دن بدن اللہ کی محبت اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کیسے رنگتے چلے گئے اور صفات میں کیسے بڑھتے چلے گئے۔ دن بدن ان کے اندر کیسے اضافہ ہوتا چلا گیا،’ کماﺅ پتر چنگا لگدا اے‘ (کمانے والا بےٹا اچھا ہی لگتا ہے)۔ جس کے اندر صفات ہوں اور جو صفات میں روز بروز بڑھ رہا ہوتو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس بندے کا اللہ سے تعلق اتنا مضبوط ہو جاتا ہے اور وہ بندہ اللہ کے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ پھر اللہ سے جو عرض کرتا ہے اللہ کردیتا ہے ۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں